عصر حاضر میں اسلام کے عملی نفاذ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں نت نئے پیدا ہونے والے مسائل کے اسلامی حل کے لیے متفرق کوششیں کی جارہی ہیں جو ایک مستحسن عمل ہے اور علماء اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے عوام کی رہنمائے فرما رہے ہیں۔ اللہ انہیں دارین میں جزائے خیر عطا فرمائے۔ اسی سلسلہ میں ایک مسئلہ سیاست بھی ہے۔زیر نظر رسالہ میں مولف نے ووٹ کی شرعی حیثیت، دینی و سیاسی جماعتوں، مسئلہ قومیت اور بین الاقوامی منظر نامی میں عالم اسلام کو درپیش مسائل جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔آمین
Archive for دسمبر, 2010
اسلام اور سیاست حاضرہ(Islam aur Siyasaat-e-Hazira)
دسمبر 29, 2010گستاخی رسول اور اسلام (Gustaakh-e-Rasool aur Islam)
دسمبر 29, 2010اللہ کے حبیب کی محبوب سنتیں وآداب زندگی (Allah ke Habib ki Mehboob Sunnatin wa Adaab-e-Zindagi)
دسمبر 29, 2010اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہا تباع سنت ہی سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا مقام حاصل کرسکتا ہے، لہٰذا علمائے امت نے ہر دور اور ہر زبان مین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو جمع کر کے مسلمانوں کو انہیں اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہےکہ وہ ایسی کتابوں کو اپنے گھر میں رکھ کر گھر والوں کو سنائیں اور ان پر عمل کرنے اور کرانے کا اہتمام کریں۔ زیر نظر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اسے مسلمانوں کے لئے نافع اور مفید بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتباع سنت کی توفیق اورا س کی برکات عطا فرمائیں آمین۔
بدعت اور اہل بدعت اسلام کی نظر میں(Bidat aur Ahl-e-Bidat Islam ki Nazar Me)
دسمبر 22, 2010زیر نظر کتاب میں مولف نے بڑی ہمت اور محنت شاقہ سے بدعت کے بارے میں حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام، مجتہدین کرام، مجددین امت اور اولیاء اللہ کے اقوال کو جمع فرمایا ہے۔ یہ سب مضامین مختلف اسفار میں منتشر تھے، آپ نے انہیں یکجا کر کے ایک نہایت مفید ترتیب دی ہے۔ قاری کو ایک ایسے محل میں لاکھڑا کیا ہے جس کے چاروں طرف اہل اللہ بدعت کی ظلمتوں کے خلاف دہائی دے رہیں اور مرد مومن شیدائی سنت بے محابا ان سے مخلصی چاہتا ہے یہ صرف مقام سنت ہے جس سے کرنیں پھوٹتی ہیں اور بدعتوں کی ظلمتیں ٹوٹتی ہیں۔یہ رسالہ طلباء، علماء سالکین اور مبلغین کے لیے بہت مفید اور صحیح معنی میں حامی سنت اور ماحی بدعت ہے۔ اللہ رب العزت اس تالیف لطیف کو اور مفید بنائے آمین
اسلام اور جدت پسندی(Islam & Modernism)
دسمبر 22, 2010جدت پسندی بذات خود ایک مستحسن جذبہ اور انسان کی ایک فطری خواہش ہے، اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو انسان پتھر کے زمانے سے ایٹم کے دور تک نہ پہنچتا۔چنانچہ اسلام نے جو ایک فطری دین ہے، کسی جدت پر بحیثیت جدت کے کوئی پابندی عائد نہیں کی، بسا اوقات اسے مستحسن قرار دیا ہے اور اس کی ہمت افزائی کی ہے۔لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جس طرح جدت پسندی نے انسان کو مادی ترقی کے بام عروج تک پہنچایا ہے، اسی طرح اس نے انسان کو بہت سے نفسانی امراض میں بھی مبتلا کیا ہے اور بہت سے تباہ کن نقصانات بھی پہنچائے ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جدت پسندی ایک دو دھاری تلوار ہے جو انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے کام بھی آسکتی ہے اور اس کا کام تمام بھی کر سکتی ہے۔لہذا ایک جدید چیز نہ محض نئی ہونے کی بناءپر قابل قبول ہے اور نہ محض نئی ہونے کی بناءپر قابل تردید ۔
اس کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیا معیار ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ فلاں جدت مفید اور قابل قبول ہے اور فلاں مضر اور ناقابل قبول؟
مولف نے اس کتاب میں اسی حد کی نشاندہی کی ہے، جس کی روشنی میں یہ فیصلہ باآسانی کیا جا سکتا ہے کہ کونسی جدت قابل قبول ہے اور کونسی نا قابل قبول۔ اﷲ ہم سب کو صراط مستقیم پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین
فقہ ولی اللّٰہی خدمات و اثرات و ثمرات(Fiqah Wali-ul-Lahi Khidmat wa Asraat wa Samrat)
دسمبر 22, 2010برصغیر ہندو پاک کی تاریخ میں حضرت شاہ ولی اﷲکی شخصیت مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی سے پہلے بھی برصغیر میں ہر علم و فن کی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنے روشن کارناموں سے برصغیر کی عظمت میں چار چاند لگائے اور حضرت شاہ ولی اﷲکے بعد بھی بلند قامت شخصیتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں مسلمانوں پر برصغیر کی سرزمین سے اٹھنے اور یہاں پروان چڑھنے والی شخصیات کے احسانات رہے۔ لیکن حضرت شاہ ولی اﷲ کی جامعیت و آفاقیت ان کا اعتدال و توازن ان کے فکر کی گہرائی اور رسائی ان کی افراد سازی کی نظیر برصغیر کی تاریخ میں بہت مشکل سے ملے گی۔حضرت نے یہ بات محسوس کی کہ ایک طبقہ تقلید جامد میں غلو کر رہا ہے اور اس کے رد عمل میں امت میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہور ہا ہے جو سرے سے تقلید کا انکار کرتا ہے اور عامۃ الناس کے لیے بھی تقلید کو حرام کرتا ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ نے راہ اعتدال بتانے کی کوشش کی اور امت کے مختلف گروہوں کو علمی و فقہی طور پر ایکد وسرے سے قریب لانے اور ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن پیدا کرنے کے لیے اپنی علمی و فکری توانائیاں صرف کردیں۔ ہر طبقہ میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کی نشاندہی اور ہر طبقہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طبقہ نے اپنا انتساب حضر ت کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا اور جس راہ عمل کی نشاندہی کی تھی اس پر عمل کرنے کے بجائے حضرت کی شخصیت پرتنازعہ شروع کر دیا۔زیر نظر رسالہ میں اس کشمکش کو حل کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اللہ سے دعاہے کہ ہماری رہنمائی فرمائے ۔ آمین
شاہ اسماعیل شہید دہلوی (Shah Ismail Shaeed Dehlvi)
دسمبر 21, 2010پاک ہند کی تحریک آزادی کن تیرہ و تاریک راہوں سے گزر کر منزل سے ہمکنار ہوئی اور علمائے اسلام کہاں کہاں دریائے خون میں تیرے ان واقعات کی یاد سے ہماری تاریخ میں تسلسل پیدا ہوتا ہے اور مضمحل رگوں میں تازہ خون کی لہر اٹھتی ہے ہم ذرا ماضی کی طرف پلٹیں تو بہتر سے بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس تحریک کے سابقین اولین فکری طور پر حضرت امام شاہ ولی اﷲاور حضرت شاہ عبدالعزیز اور عملی طور پر ان کے خلفاء حضرت سید احمد شہید اور حضرت مولانا اسماعیل شہید تھے۔ ان شہیدوں نے سرزمین ہند میں قربانیوں کی ابتداء کی ملت ابراہیم کو اپنے پہلے اسماعیل پر بھی ناز ہے اور پچھلے اسماعیل کی قربانی پر بھی۔تحریک آزادی نے آئندہ بھی مختلف کروٹیں لیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک آزادی کے خاکے میں پہلا رنگ شہدائے بالاکوٹ کے خون نے بھراتھا۔
حضرت مولانا اسماعیل شہید کو بدنام کرنے میں بیرونی سامراج نے کوئی کمی نہیں کی جدید نسلوں کو اپنے ماضی سے کاٹنے کے لیے ان حضرات کے خلاف تفرقے کے سائے اس بھیانک انداز میں پھیلائے گئے کہ ملت خواہ مخواہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ یہ مختصر رسالہ اس سلسلہ کی کڑی ہےیہ اہل حق کا دفاع ہے اور محدثین دہلی سے تاریخی وابستگی کی ایک حسین یاد ہے ۔ اسوقت پاکستان میں اور بیرون پاکستان فریب خوردہ واعظوں کی ایک لمبی قطار لگی ہے، جو شب و روز مولانا اسماعیل شہید کے خلاف گستاخی رسول کا لاوا اگلتے ہیں اور اس ذوق تکفیر میں ان کے پینے پلانے کے جام چھلکتے ہیں۔تاریخ کو مسخ کرنے کے اس جاہلانہ شوق پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔حضرت مولانا اسماعیل شہید کے خلاف جو جو الزامات سے تصنیف کئے گئے ہیں ان تفصیلی جواب کے لیے بہت سی جزئیات خود مولانا شہید کی تحریرات سے ہی پیش کی گئی ہیں۔
پاک ہند کی تحریک آزادی کن تیرہ و تاریک راہوں سے گزر کر منزل سے ہمکنار ہوئی اور علمائے اسلام کہاں کہاں دریائے خون میں تیرے ان واقعات کی یاد سے ہماری تاریخ میں تسلسل پیدا ہوتا ہے اور مضمحل رگوں میں تازہ خون کی لہر اٹھتی ہے ہم ذرا ماضی کی طرف پلٹیں تو بہتر سے بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس تحریک کے سابقین اولین فکری طور پر حضرت امام شاہ ولی اﷲاور حضرت شاہ عبدالعزیز اور عملی طور پر ان کے خلفاء حضرت سید احمد شہید اور حضرت مولانا اسماعیل شہید تھے۔ ان شہیدوں نے سرزمین ہند میں قربانیوں کی ابتداء کی ملت ابراہیم کو اپنے پہلے اسماعیل پر بھی ناز ہے اور پچھلے اسماعیل کی قربانی پر بھی۔تحریک آزادی نے آئندہ بھی مختلف کروٹیں لیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک آزادی کے خاکے میں پہلا رنگ شہدائے بالاکوٹ کے خون نے بھراتھا۔
حضرت مولانا اسماعیل شہید کو بدنام کرنے میں بیرونی سامراج نے کوئی کمی نہیں کی جدید نسلوں کو اپنے ماضی سے کاٹنے کے لیے ان حضرات کے خلاف تفرقے کے سائے اس بھیانک انداز میں پھیلائے گئے کہ ملت خواہ مخواہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ یہ مختصر رسالہ اس سلسلہ کی کڑی ہےیہ اہل حق کا دفاع ہے اور محدثین دہلی سے تاریخی وابستگی کی ایک حسین یاد ہے ۔ اسوقت پاکستان میں اور بیرون پاکستان فریب خوردہ واعظوں کی ایک لمبی قطار لگی ہے، جو شب و روز مولانا اسماعیل شہید کے خلاف گستاخی رسول کا لاوا اگلتے ہیں اور اس ذوق تکفیر میں ان کے پینے پلانے کے جام چھلکتے ہیں۔تاریخ کو مسخ کرنے کے اس جاہلانہ شوق پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔حضرت مولانا اسماعیل شہید کے خلاف جو جو الزامات سے تصنیف کئے گئے ہیں ان تفصیلی جواب کے لیے بہت سی جزئیات خود مولانا شہید کی تحریرات سے ہی پیش کی گئی ہیں۔
فقہ حنفی کے اصول و ضوابط (Fiqah Hanafi k Usool wa Zawabit)
دسمبر 21, 2010اصول فقہ کے موضوع پر مجتہدین کے زمانہ سے اہل فقہ و فتاوی کتابیں لکھتے چلے آرہے ہیں، مذاہب حقہ میں سے ہر مسلک و مذہب کے اصول پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ فقہ حنفی کے مسلک اور امام ابو حنیفہ کے مذہب کو سامنے رکھتے ہوئے متعدد محققین احناف نے اصول فقہ پر تصنیف و تالیف کاکام کیا ہے ۔ متاخرین فقہاء کے مدون کردہ اصول فقہ کی دو قسمیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو وہ اصول فقہ جس میں الفاظ و معانی کے اعتبار سے مباحث ذکر کئے جاتے ہیں۔ اصول فقہ کا ایک حصہ اور بھی ہے جو اس سے کچھ مختلف ہے جس کے مضامین و مباحث اس سے جداگانہ ہوتے ہیں، جس میں عر رواج، تشبہ، عموم، بلوی، حیلہ، تاویل، تحریف، تداخل عبادتین، علت و حکمت وغیرہ اصولی مباحث ہوتے ہیں۔اصول فقہ کے پہلے جز پر اردو میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن دوسرے حصہ پر اردو میں کوئی کتاب نظر میں نہ آئی تھی، پیش نظر رسالہ میں حکیم الامت مجدد ملت کے گرانقدر ملفوظات بیش بہا مواعظ اور جملہ محققانہ تصانیف کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے اور اصول فقہ سے متعلق حضرت تھانوی کے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا ہے اور اصول فقہ سے متعلق حضرت تھانوی کے کلام میں جو بھی بات موجود تھی ان تمام شہ پاروں کو حسن ترتیب کے ساتھ چن چن کر اصول فقہ کی لڑی میں پرو دیا ہے۔اﷲسے دعا ہے کہ اس کتاب کو امت مسلمہ کے لئے نافع بنائے حضرت رحمہ اﷲاور ہم جملہ متوسلین کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین
You must be logged in to post a comment.